تحریر :سید عنبر عباس رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ انسانیت اور بشریت میں خدا اور دین کے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں، ایک گروہ جسکا نظریہ ہے کہ انسان کا کائنات کی طبیعی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہونا، اس تصور کی اصل وجہ ہے۔ خوف و ہراس سے اپنے نفس کو سکون و اطمینان فراہم کرنے کے لیے انسان نے ایک بڑی قوت کا تصور ایجاد کیا جو تمام عوامل پر غالب ہو اور وہی قوت خدا کہلائی۔
ایسے نظریات کے قائل افراد وہ ہیں جو خود انسانی ترقیات کو اور اسکے ترقی یافتہ و پیشرفتہ مخلوق ہونے کے حوالے سے اس بات کے قائل ہیں کہ انسان حیوان سے درجہ بدرجہ ترقی کرتا ہوا اس منزل تک پہنچا ہے، جبکہ دین اور خلقت بشر کا قرآنی تصور کچھ اور ہی ہے جو تاریخ عالم ملک و ملکوت کے سینے پر منقوش ہے، جہاں پروردگار عالم نے انسان کو بہترین مخلوق کی حیثیت سے خلق کیا اور اسے بشر کہہ کر خطاب کیا۔
بقول استاد آیت اللہ حسین مرتضیٰ مدظلہ العالی: بشر یعنی وہ مخلوق جو اپنے وجود اور اپنی ماہیت کے اعتبار سے سراسر بشارت ہے۔ جب اس مخلوق کو زمین پر بھیجا تو پہلے انسان کو نبی بنا کر بھیجا جو پروردگار کی وحدانیت کا اقرار و اعلان کرنے والا اور ہادی تھا، اگر آپ اس مقام پر قران کے نظریہ خلقت اور دیگر مفکرین کے نظریے کا موازنہ کریں تو بڑا ہی لطیف پہلو سامنے آتا ہے وہ یہ ہیکہ قران جس طرح سے انسان کی خلقت کا ذکر کر رہا ہے وہاں پہلا بشر نبی ہے گویا عالم ہے ہادی ہے اور اس کے یہاں از روز اول وحدہ لا شریک پروردگار کا تصور موجود ہے اور دوسری جانب مفکرین اور فلاسفرز جو نظریہ تدریج کے قائل ہیں وہاں انسان کی ابتدا میں حیوانیت اور جہالت شامل ہیں گویا خدا کا تصور بھی جہالت کی بنیاد پر ہے جسے انسان نے اپنے نفس کی تسکین کے لیے ایک خدا کو فرض کیا اور پھر زیست معاشرے کے سانچے میں ڈھل گئی اور دھیرے دھیرے مناسک و قوانین وضع ہوتے چلے گئے۔
ساتھ ہی کچھ لوگوں کے یہاں خدا کا تصور کسی نہ کسی قوت یا شکل میں موجود ہے اور انکے یہاں دین کا بھی تصور پایا جاتا ہے لیکن دین کا نقش ایک محدود دائرہ میں ہے۔
کم الفاظ کے ساتھ گزشتہ مطالب میں کوشش کی گئی کہ دین اور خدا کے مختلف النوع تصورات کو پیش کر دیا جائے۔
زمانہ قدیم سے آج تک دین کے حوالے سے جھوٹے سچے سیاہ و سفید فرضیے بنتے گئے جو دین حقیقی کے مقابلے پر آتے جاتے رہے،مگر دین حقیقی وہ دین ہے جو مقنن حقیقی خداوند متعال کے بھیجے قوانین کا مجموعہ ہے جو عقل و فطرت سے رتی بھر منافی و متضاد نہیں ہے،
اب سوال یہ ہیکہ دین انسان کی زندگی کے کن پہلوؤں میں دخل انداز ہے اور کہاں دخل انداز نہیں ہے؟
جاری ہے.....